جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور فوج کو سیاست کی آڑ میں گالیاں دینے والے

 ‏‎وہ قومیں ہمیشہ برباد ہوئیں ہیں جنھوں نے اپنے محافظوں کی قدر نہ کی یا محافظ ہی نہ بنائے تاریخ گواہ ہے کہ بغداد کے خلیفہ معتصم باللہ کا ہلاکو خان نے کیا حشر کیا تھا. ہلاکو خان جب معتصم باللہ کے عالی شان محل میں پہچا تو چاروں جانب نظر کما کر دیکھا تو اسے  ہر طرف خوبصورت فنکاری, ہیرے, جواہرات, شاندار تحت اور خلیفہ درباری دکھائی دیے تو اس نے کہا کہ میں تو اپنی فوجیں لے کر بغداد پر چڑھائی کرنے آیا تھا. میں نے سوچا کہ بغداد اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کے لشکر سے مقابلہ آسان نہ ہوگا لیکن مجھے خلیفہ کے محل تک آنے سے کسی نے روکا تک نہیں. ہلاکو خان نے خلیفہ سے پوچھا تمھاری فوجیں کہاں ہیں. خلیفہ معتصم باللہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا پھر ہلاکو نے خلیفہ کے سامنے بیٹھ کر سادہ سے برتن میں کھانا کھایا. اس کے بعد ہلاکو خان نے کہا میں نے تو اپنا کھانا کھا لیا ہے اب آپ کے کھانے کی باری ہے ہلاکو نے خلیفہ معتصم باللہ کو تخت سے اتارا اور محل کے دولت خانے کی طرف لے گیا جہاں ہیرے موتی اور سونے کے سکے بڑی تعداد میں موجود تھے ہلاکو نے ان قیمتی ہیرے جواہرات کی مٹھی بھری اور خلیفہ کے منہ میں ٹھونستے ہوئے کہا انہیں کھاؤ خلیفہ نے کہا میں انہیں کیسے کھا سکتا ہوں جس پر ہلاکو جو کہ غیر مسلم اور ظالم شخص تھا اس نے کہا اگر انھیں کھا نہیں سکتے تو جمع کیوں کر رکھا ہے تم نے یہ قیمتی خزانہ اپنے سپاہیوں کو کیوں نہ دیا جو میرا راستہ روکتے سونے کے سکوں کی جگہ تم نے تیر تلوار کیوں نہ رکھے جو میرا مقابلہ کرنے کے کام آتے. کافر ہونے کے باوجود ہلاکو نے ایک مسلمان خلیفہ سے کہا کہ تمھارا مزہب تو تمھیں جہاد کی تیاری کا حکم دیتا ہے پھر تم نے جہاد کی تیاری کیوں نہیں کی اس کے جواب میں خلیفہ معتصم باللہ نے کہا یہی  اللہ کی مرضی تھی اس جواب پر ہلاکو غضب ناک انداز میں  بولا اے خلیفہ اب میں جو تمھارے اور اس شہر کے لوگوں کے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی اللہ کی مرضی ہو گی.تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا خلیفہ جو جہاد اور دین سے غافل تھا اس کے پاس دنیا کی ہر چیز تھی اس کے آگے پیچھے جی حضوری کرنے والوں کی قطاریں لگی رہتی تھی اس کا تحت تاج انتہائی قیمتی تھا لیکن وہ بلکل بے بس کھڑا تھا کیوں کہ اس کے پاس ہلاکو کا مقابلہ کرنے کیلئے اتنی فوج بھی نہیں تھی جو کم از کم ہلاکو کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی. ہلاکو خان نے خلیفہ معتصم باللہ کو اذیت ناک موت دینے کے لئے اسے ایک بوری میں ڈال کر اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھا اور بغداد کی گلیوں, چوراہوں اور پتھروں پر گھسیٹا اور لوگوں کو کہتا رہا کہ کے اپنے خلیفہ کا انجام دیکھ لو خلیفہ کی موت کے بعد ہلاکو نے بغداد میں اس قدر خونریزی  کی کے اس کی فوجوں کے گھوڑے گھنٹوں تک خون میں ڈوب گئے اور بغداد میں کوئی مسلمان دکھائی نہیں دیتا تھا جو ایک آدھ مسلمان بچ نکلا تھا وہ بھی ڈر کے مارے گلے میں سلیب لٹکا کر عیسائی بن گیا. اس واقعہ سے ہر مسلمان کو  عبرت حاصل کرنی چاہیے. 

آپ کو یہ واقعہ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پورے عالم اسلام میں  ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ کہ ہم ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوئے ورنہ جس مسلمان ملک نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی اسی دشمن نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا پاکستان اللہ کے کرم سے آج مضبوط ترین دفاع رکھتا ہے لیکن یہ ایسے ہی نہیں ہے زرا تاریخ پڑھیں کہ پاکستان ایٹمی قوت کیسے بنا کس قدر مشکل ترین حالات میں پاکستان نے ایٹمی پروگرام مکمل کیا اور پھر ساری طاقت ایک جگہ لگا کر ایٹمی دھماکے کئے یہ مشن اللہ کے ان شیروں کی وجہ سے کامیاب ہوا جنھوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ پاکستان کو ہر صورت ایٹمی طاقت بنانا ہے.بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے پر اسے کسی نے نہیں روکا پابندیاں صرف مسلمانوں کے لئے ہیں اس دنیا میں مسلمان ہونے کی سزا موت ہے اسے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم پر جہاد کو فرض کیا ہے تاکہ کوئی اپنی مظلومیت خدا پر نہ ڈالے جینا ہے تو لڑنا پڑے گا اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہی ہے ورنہ جس ملک کا ہر ادارہ کرپٹ ہے جہاں کے حکمران غدار اور دشمن کے ساتھی ہیں عوام بھی سنی سنائی باتوں پر اپنے محافظوں کو گالیاں دیتی ہے پر خدا نے جو فوج اور ایجنسی ہمیں عطا  فرمائی ہے اس کی مثال کوئی اور فوج یا ایجنسی ہو ہی نہیں سکتی جو گالیاں دینے کے باوجود ہمیں مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی ہر جگہ فوج کو بلایا جاتا ہے کیوں کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ فوج ہی ہماری خلوص نیت سے مدد کرے گی ہماری سرحدیں محفوظ ہیں. ہلاکو کی طرع کوئی بڑے سے بڑا دشمن ہمارے پاک وطن پر میلی نگاہ نہیں ڈال سکتا کیوں کہ اس پاک وطن کے محافظ فولاد کی مانند کھڑے ہیں جو خود شہید ہو جاتے ہیں مگر کسی دشمن کو ہم تک پہنچنے نہیں دیتے آج ہمارے اندر موجود کالی بھیڑیں ہمیں اپنے ہی محافظوں کے خلاف اکسا کر ہمارا حشر اسی طرع کرنا چاہتی ہیں جو ہلاکو نے خلیفہ معتصم باللہ کا کیا تھا جس کے بعد بغداد کے لوگوں  کو بھی اس کوتاہی کا خمیازہ بھگتنا پڑا. اس لئے اپنی آنکھیں کھیلیں رکھیں اور اپنے چاروں طرف دیکھیں کہ دشمن کس طرع ہمیں مٹانے کی سازش کر رہا ہے کیا سیاست دان اور لفافہ صحافی ہمیں دشمن سے بچا سکیں گے ہر گز نہیں بلکہ یہ تو خود دشمن کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ان کی حکومت میں جنرل باجوہ بہت سلجھے ہوئے اور شریف ایماندار انسان تھے لیکن حکومت جاتے ہی جنرل باجوہ غدار بن گئے. جس عمران ریاض خان کو ہم نے سر پر بٹھا رکھا ہے اس نے ہمارے لئے کیا قربانی دی ہے بلکہ اس نے تو ہمیں بیوقوف بنا کر کروڑوں روپے کمائے ہیں کیمرے کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے ولا بندہ ایک فوج کے جرنل کے خلاف لگاتار باتیں کرتا ہے اور ہم اسے محب وطن سمجھ کر اس کے وی لاگ دیکھتے ہیں جس سے اسے پیسہ ملتا ہے اور ہماری شاباشی بھی اور جس شخص نے ساری زندگی مشکل ترین حالات میں گزاری کئی بار موت اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزری آج بھی جو ادارے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالتا ہم اسے غدار کہہ رہے ہیں اس کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے حالانکہ اس کے پاس اختیار ہے وہ کسی بھی وقت سول حکومت کو گرا کر کنٹرول سنبھال سکتا ہے مگر اس نے ایسا نہیں کیا یہ جنرل باجوہ کی کمزوری نہیں بلکہ شرافت ہے اور شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کو ہم نے جواب دینا ہے فوج کے خلاف کوئی بھی بولے اسے منہ پر کہو بھائی کوئی کام کی بات کرنی ہے تو کرو ورنہ تمھارا راستہ الگ ہے اور میرا الگ مجھے ایسے محب وطن نہیں چائیں جو میرے محافظوں کو بدنام کر رہے ہیں. 

‏‎عمران ریاض خان فوج کو لگتار ٹارگٹ کرتا رہا اور ابھی بھی کر رہا ہے لیکن ہماری سادہ لوح عوام اس کو ہیرو سمجھ رہی ہے یہ مردود ہمارے محافظوں اور عوام کے درمیان انتشار پھیلانے کی سب سے بڑی کوشش ہے اگر اسے روکا نہ گیا تو پھر بھیانک انجام کے لئے بھی تیار رہو



Post a Comment

0 Comments