Who Was Captain Abdul Qadeer Baloch Shaheed? Pak Army And ISi Hero Complete Story

 Wo Kon Tha? Real Story Of A Captain Qadeer Baloch Shaheed Pakistani Military Intelligence ISI Agent  

Captain Qadeer Baloch Pakistani Military Intelligence ISI Agent


یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی 
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا 
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی 
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذت آشنائی 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشورکشائ

دوستو شہید کیپٹن قدیر بلوچ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے وہ جانباز ہیرو تھے جنہوں نے وطن سے محبت کی خاطر اپنی ہستی کو مٹا ڈالا اور پاکستان کے عشق
 میں اپنے وجود کو فنا کر دیا . کیپٹن قدیر نے دشمن کے سب سے بڑے جاسوس کلبوشن یادیو کو اس کے گنگ سمیت  پکڑ کر وطن سے محبت اور خاکی وردی کا حق ادا کیا 
دوستو شہید کیپٹن قدیر بلوچ  کا تعلق بلوچستان کے علاقے خوزدار سے تھا کیپٹن قدیر نے ایک بڑے زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی بچپن سے جوانی تک ان کی زندگی شہزادوں  جیسی تھی. 300 ایکڑ قابل کاشت اراضی کے مالک ہونے کے علاوہ ان کے پاس پیسہ 
 شاندار حویلی مہنگی گاڑیاں نوکر چاکر  سب کچھ تھا.
لیکن  ان کے دل میں پیسہ مال و جائیداد اور مہنگی گاڑیوں سے محبت نہیں تھی کیوں کہ انہیں خدا
 نے وہ مقام دینا تھا جس کے سامنے دنیا کی ہر چیز بےمعنی اور پھیکی پڑ جاتی ہے کیپٹن قدیر نے مال و دولت زمین جائیداد آرام و سکون کی زندگی کو  پس پشت ڈال دیا اور وطن سے محبت کا ثبوت پیش کرنے کے لئے پاک فوج میں بھرتی ہوے. فوج کی ملازمت پر انھیں طعنے دیئے گئے کہ تم پاکل ہو جو چند ہزار روپے کے لئے نوکر بن رہے ہو  لیکن انھوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ فوجی تنخواہ کے لئے  نہیں
 بلکہ وطن کے دفاع کیلئے فوج میں آتا ہے ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے بہت سمجھایا کہ جب ہر چیز گھر میں بیٹھے بٹھائے مل رہی ہے تو نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے. کیپٹن قدیر  کا جذبہ اتنا پکا تھا کہ انھوں نے اپنی والدہ سے اجازت لی اور باقی سب کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی. پاک آرمی میں بھرتی ہونے کے بعد  قدیر بلوچ سیکنڈ لفٹیننٹ سے ترقی کرتے ہوئے کیپٹن کے رینک تک پہنچے کیپٹن قدیر  کی زہانت ملک سے محبت اور جزبہ ایمانی دیکھتے ہوئے انہیں دنیا کی نمبر ون اور ناقابلِ شکست تسلیم کی جانے والی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں شامل کر لیا گیا .ان دنوں بلوچستان کے حالات اچھے نہیں تھے  دشمن نے اربوں ڈالرز لگا کر کے بہت سے دہشت گرد ایران باڈر کے راستے بلوچستان میں داخل کر دئے تھے اور پاکستان میں
 موجود سہولت کاروں کو ایک بڑی رقم کے عوض خرید لیا گیا ان سب پر کنٹرول کرنے اور  دہشتگردی کی وارداتیں پلان کرنے کے لیے انڈین ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوش یادیو کو بیجھا گیا اس سے پہلے کلبھوشن یادیو کو 3 سال تک ایران میں جاسوسی کی تربیت دی گئی کلبھوشن پر اربوں کھربوں ڈالرز خرچ کئے گئے کوئی بھی ملک اتنی بڑی رقم کسی ایک بندے پر خرچ نہیں کرتا جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کلبھوشن کس قدر بڑا جاسوس اور دہشتگرد تھا. مگر سلام ہے قوم کے ان بیٹوں کو جو بڑے بڑے طوفان سے نمٹنے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں.
دوستو کیپٹن قدیر کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا. اس لئے انھیں ایک خفیہ پلان دیا گیا تھا یہ مکمل واقعہ دوسرا رخ لے لیتا ہے جو کہ اس ویڈیو کا ٹاپک نہیں ہے انشا اللہ کسی دوسری وڈیو میں میں اس کی
 تفصیل آپ کے ساتھ شئر کروں گی. دوستو کلبھوشن نے پاکستان میں انٹری کے بعد  دہشتگردی پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا تھا کیپٹن قدیر  اور چند مارخوروں کی ٹیم کو کلبوشن یادیو اور اس کے گینگ کو پکڑنے کا ٹاسک ملا .مارخوروں کی یہ ٹیم مختلف بھیس بدل کر دشمن کا سایہ بن گئی اس مشن کے دوران کیپٹن قدیر  نے  کچرا اٹھانے والے کا روپ دھارا اور اپنے وطن کے دفاع کیلئے سر بکف ہو کر کام کرنے لگے. 
یہ نوجوان جو نرم بستر پر سونے کا عادی تھا اس کے آگے پیچھے نوکروں چاکروں کی بھرمار تھی .اس کی ایک آواز پر کئی کئی ملازم حاضر ہو جاتے تھے مہنگی سے مہنگی کاریں اور گاڑیاں اس کی حویلی کی زینت تھی. 
لیکن آج یہ پاکستان کی محبت میں سب کچھ ٹھکرا کر ایک میلے کچیلے فقیر کی حالت میں بلوچستان کے
 پہاڑوں اور ریگزاروں  میں در بدر پھرتا ہوا کوڑا کچرا اٹھا رہا تھا. سخت سردی کی حالت میں ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ کر کبھی گندگی کے ڈھیروں پر لیٹا دکھائی دیتا تو کبھی پاگلوں کی طرح زور زور سے ہنستا اور چلاتا تھا. کئی کئی دن بھوک پیاس میں گزر جاتے اور راتیں کھلے آسمان تلے بیت جاتی. لیکن پاکستان سے محبت کا جنون اس کے حوصلے پست نہیں ہونے دیتا تھا. 
دوستو پاکستان آئی ایس آئی کو کلبوشن یادیو کی خبر پہلے دن سے ہی مل چکی تھی جس دن یہ ایران باڈر سے پاکستان میں داخل ہوا تھا لیکن آئی ایس آئی را کے پورے کینگ کو پکڑنا چاہتی تھی. کیپٹن قدیر اس دہشت گرد کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہے اور یہ کوئی  ایک دو دن یا مہینوں کی بات نہیں تھی بلکہ  پورے تین سال یہ مارخور اسی حالت میں پھرتا رہا آخر تین سال کے بعد انھیں را کے سارے گینگ کا سراغ مل گیا. تب جا کر آئی ایس آئی کے اس مارخور نے پورے سبوتوں کے ساتھ کلبوشن اور اس کے گینگ  کو پکڑا اس کے بعد بھارت کا ناپاک چہرہ پوری دنیا کے سامنے لایا گیا. 
دوستو  کیپٹن قدیر  اپنا مشن پورا کر کے اسی حالت میں گھر کی جانب نکل پڑے اور گھر کے باہر پہنچ کر وہیں بیٹھ گئے. کیپٹن قدیر  کا بھائی دروازے پر آیا  انہیں دیکھا تو سمجھا کہ کوئی فقیر ہے اور ماں کو آواز دی کہ اماں جان باہر کوئی فقیر آیا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ بیچارا کئی دنوں کا بھوکا ہے اسے کچھ کھانے کو دے دو. ماں روٹی لے کر آئی اور ان کے سامنے رکھتے ہوئے  کہنے لگی فقیر بابا یہ کھانا کھا لو اور میرے بیٹے کے لئے دعا کرنا. کیپٹن قدیر کو اس حالت میں دیکھ کر ان کی ماں بھی پہچان نہ سکیں کیپٹن قدیر بلوچ کے آنسو بھی آنکھوں سے ٹپکنے والے تھے مگر فرض  تھا کہ ماں کو حقیقت نہیں بتائی اور پوچھا کہ آپ کا بیٹا کیا کرتا ہے ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور روتے ہوئے کہا میرا بیٹا فوجی ہے. مگر وہ کوئی عام فوجیوں کی طرح نہیں ہے. اس کا کچھ پتا نہیں چلتا کبھی سالوں بعد ایک دو بار بات ہوتی ہے اور ہر بار ایک ہی بات بولتا ہے ماں  اگر میں لوٹ کر واپس نہ آیا تو سمجھ لینا کہ تیر بیٹے نے  خاکی وردی کا حق ادا کر دیا  ہے اور  ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا ہے .
اس کے ساتھ ہی ماں کی ہچکیاں بندھ گئی  کیپٹن قدیر
 نے ماں کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ جن کے بیٹے اس وطن کی مٹی پر قربان ہو جاتے ہیں ان سے زیادہ خوش نصیب مائیں اور کون ہو سکتی ہیں. 
 کیپٹن قدیر بلوچ کی شہادت 2 جون 2018 کو ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہوئی. ان کی ننھی سی بیٹی سخت بیمار
 تھی. کیپٹن قدیر کو اطلاع مل چکی تھی کہ بیٹی کی
 تبعت خراب ہوتی جا رہی ہے پھر بھی کیپٹن قدیر نے پہلے اپنا فرض پورا کیا اور مشن مکمل کرنے کے بعد کوئٹہ سے  خوددار  کی جانب آ رہے تھے. کے اس دوران ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا سپیڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے گاڑی کنٹرول نہ ہو سکی. اس حادثے میں کیپٹن قدیر بلوچ شہید ہو گئے. 
 اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
سلام ہے اس ماں کو جس نے شیر دل بیٹے کی شہادت پر کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی ماں ہوں سبز
 ہلالی پرچم میں لپٹا بیٹا ہر ماں کے نصیب میں نہیں ہوتا. میں خوش قسمت ماں ہوں میرے بیٹا اپنی زندگی میں یہ بات کئی بار دہرا چکا تھا جیسے کہ اسے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی خاص کام کے لیے چن لیا ہے دوستو کیپٹن قدیر بلوچ  ایک فرشتہ صفت انسان تھے ان  کے پاکستان کے لئے اتنے کارنامے ہیں جو بیان بھی نہیں کئے جا سکتے .اس اللہ کے شیر نے بلوچستان میں راہ کی کمر توڑ کر رکھ دی. مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس فرشتہ صفت انسان کی کیا کیا خدمات بتاؤں اور کیا تعریف کروں اس کے سامنے ہر چیز چھوٹی اور ماند پڑ جاتی ہے قوم کے انھیں بیٹوں کی وجہ سے آج پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے جو پاکستان کی محبت میں تمام حدیں  پار کر جاتے ہیں جب  پاکستان کے محافظ ایسے ہوں گے تو کوئی ہمارا کیا مقابلہ کر سکے گا. 
یہ ایسے لوگ ہیں جو  ہمارے لئے ہر طوفان سے ٹکرا جاتے ہیں اور بدلے میں کچھ نہیں مانگتے ہمیں .

 
میں گمنام سپاہی ہوں میں گمنام ہی رہتا ہوں تاکہ تمھارا نام باقی رہے


Post a Comment

0 Comments