پاک فضائیہ کا ناقابلِ یقین کارنامہ آپریشن انسپائرڈ الرٹ 3 مئی 1995 کا دن امریکہ ہمیشہ یاد رکھے گا

 

اسلام و علیکم دوستو  

پاکستان آئر فورس کے شاہینوں نے ہمیشہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا ہے اور ایسے کئی مشنز کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے جو بظاہر ناممکن تھے لیکن پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹس نے انہیں مکمن کر دکھایا اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا.

آج کی پوسٹ میں ہم پاک فضائیہ کا ایک ایسا کارنامہ آپ کے ساتھ شئر کریں گے جس نے امریکی نیوی کو حیران پریشان کر کے رکھ دیا تھا اور انہیں سمجھ ہی نہ آئی کے آخر پاکستانی طیارے ان کے جدید ترین ریڈار سسٹم کی نظر میں آئے بغیر ان پر کیسے چھپٹ پڑے اور امریکہ کا غرور خاک میں مل دیا. 

دوستو یہ واقعہ 3 مئی 1995 کا ہے جب امریکی نیوی کی جانب سے انسپائرڈ الرٹ جنگی مشقوں کا انعقاد کیا گیا تھا. جس میں پاکستان اور امریکہ کی بری, بحری اور فضائی افواج نے حصہ لیا. ان مشقوں کے آخری مراحل میں امریکی نیوی نے پاک فضائیہ کی قابلیت کو چیلنج کر دیا اور 3 مئی 1995 کا دن اپنے نام کر کے پاکستان آئر فورس کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کی کوشش.

پاک فضائیہ کے شاہینوں کو ہدف ملا کہ انھیں امریکی نیوی کے جدید ترین بحری بیڑے ابراہم لنکن کے قریب جا کر اسے مصنوعی طور پر تباہ کرنا ہے جبکہ امریکی نیوی کو یہ ٹاسک ملا تھا کہ انھیں پاکستان آئر فورس کے معراج طیاروں کا بحری بیڑے کے قریب پہنچنے سے قبل سراغ لگانا ہے اور  بحری بیڑے پر موجود امریکی آئر فورس کے جدید لڑاکا طیارے ایف 14 کو فضا میں اڑان بھر کر پاکستانی طیاروں کو ہوا میں ہی گھیر کر تباہ کرنا تھا.

ان مشقوں میں امریکی بحری اور فضائی افواج کے افسران مکمل مطمئن تھے کہ مشن انسپائرڈ الرٹ میں انھیں ہی کامیابی ملے گی ان کے اعتماد کی وجہ امریکی بحری بیڑے ابراہم لنکن پر موجود دنیا کا سب سے جدید اور بہترین ریڈار سسٹم تھا جو میلوں دور سے ہر قسم کی فضائی نقل و حرکت کی 100 فیصد درست نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور امریکی بحری بیڑے پر موجود لڑاکا طیارے بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس تھے جو ہر لحاظ سے پاکستانی معراج طیاروں سے کئی گناہ بہتر تھے.

پاک فضائیہ کی جانب سے اس مشن پر روانہ ہونے کے لئے بہت سے پائلٹ تیار تھے لیکن اس مشن کے لئے صرف دو پائلٹوں کو سلیکٹ کیا جانا تھا جنھوں نے معراج لڑاکا طیاروں پر تقریباً ایک نا ممکن مشن کے لئے جانا تھا.

پاک فضائیہ کے سینئر کمانڈر کے فیصلے کے مطابق اس مشکل ترین مشن کے لئے ونگ کمانڈر عاصم سلیمان اور فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کا انتخاب کیا گیا.

ونگ کمانڈر عاصم سلیمان ان دنوں پاک فضائیہ کے سکوارڈن نمبر 8 کے بطور کمانڈر فرائض سرانجام دے رہے تھے. ونگ کمانڈر عاصم سلیمان اس آپریشن کو لیڈ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن بطور ونگ مین مشن پر روانہ ہونا تھا. 3 مئی 1995 کو دن 3 بجے کے قریب دونوں شاہین اپنے اپنے طیاروں کی جانچ پڑتال میں مشغول تھے اس دوران ونگ کمانڈر عاصم سلیمان نے فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اپنے قریب بلایا اور کہا احمد مجھے امید ہے کہ آپ اس مشن کے لئے مکمل طور پر تیار ہو اس پر احمد حسن کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور اپنے سینئر سے پر اعتماد لہجے میں کہا سر آج 3 مئی 1995 کا دن ہے انشاء اللہ یہ دن امریکہ کو کبھی نہیں بھولے گا ونگ کمانڈر عاصم سلیمان کو اپنے نوجوان شاہین کی اس بات پر پورا یقین تھا کیوں کہ فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کی زندگی کا یہ پہلا مشن تھا اور ان کا جذبہ عروج پر تھا.

ونگ کمانڈر عاصم سلیمان نے مشن پر روانہ ہونے سے قبل ہی  ایک انوکھا پلان بنا لیا تھا  لیکن فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اس وقت اپنے پلان سے آگاہ نہیں کیا اور مشن پر روانہ ہونے کے بعد یہ ہدایات طیارے کے وائیرلس کے زریعے احمد حسن کو دینے کا فیصلہ کیا.

کچھ دیر بعد دونوں شاہین اپنے اپنے معراج طیاروں کے کاکپٹ میں موجود تھے پاکستانی آئر بیس پر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صداؤں میں دونوں پائلٹوں نے فضاؤں میں اڑان بھری اور مشن کے لئے روانہ ہوگئے.

جبکہ دوسری جانب امریکی نیوی کے افسران بحری بیڑے پر موجود جدید ترین ریڈار سسٹم پر نظریں جمائے بیٹھے تھے تاکہ جونہی ریڈار پر پاک فضائیہ کے طیاروں کی نشاندہی ہو اور فوری ان کی فضائیہ کے پائلٹ جدید ترین ایف 14 طیاروں میں اڑان بھر کر پاکستانی طیاروں کو بحری بیڑے سے میلوں دور ہی فضا میں تباہ کر دیں اس فتح کے بعد امریکی فورسز نے جشن منانے کی تیاریاں بھی کر رکھی تھی.

امریکی پائلٹ اپنے طیاروں میں موجود بے تابی سے اگلے حکم کا انتظار کر رہے تھے.

پاکستان آئر فورس کے دونوں پائلٹس بھی اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اس دوران اچانک فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو وائرلس پر اپنے لیڈر عاصم سلیمان کا انوکھا اور خطرناک پیغام سنائی دیا یہ وہی پلان تھا جس کو ونگ کمانڈر عاصم سلیمان نے آپریشن کے دوران اپنے ونگ مین کو بتانے کا فیصلہ کیا تھا.

یہ پیغام سننے کے ساتھ ہی بیک وقت دونوں طیارے تیز رفتاری کے ساتھ فضا سے زمین کی طرف بڑھنے لگے.

امریکی بحری بیڑے پر اس وقت سناٹا چھا گیا جب پاکستانی شاہینوں نے امریکی نیوی اور آئر فورس کو حرکت کا موقع دیے بغیر بحری بیڑے کے بلکل قریب آ کر سمندر سے محض چند فٹ اوپر سے اپنے معراج طیارے بجلی کی رفتار سے فضا میں بلند کئے اور ساتھ ہی امریکی بحری بیڑے کو مصنوعی طور پر اپنے ہدف کا نشانہ بنا کر پاکستان کی فاتح کا پیغام کنٹرول روم کو دیا.

اس فتح کے پیغام کے ساتھ ہی پاکستانی آئر بیس ایک بار پھر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی جبکہ امریکی حیران و پریشان تھے کہ آخر یہ کیسے ہوا کیوں کہ پاکستانی طیاروں کا ریڈار سسٹم پر نام و نشان تک نہیں آیا  تھا. سب امریکی ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہ گئے ان کا غرور خاک میں مل چکا تھا

ونگ کمانڈر عاصم سلیمان نے طیارے میں اڑان بھرنے سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ انھیں امریکی ریڈار سسٹم سے بچنے کیلئے اپنے طیاروں کو انتہائی نچلی سطح پر تیز رفتاری سے ہدف کی طرف لے جانا پڑے گا. اس قدر نچلی سطح پر معراج طیارے کو اڑانا تقریباً نا ممکن ہے اور آج تک دنیا کا کوئی پائلٹ جدید لڑاکا طیارے کو بھی اتنی نچلی سطح پر نہیں اڑا سکا سطح سمندر پر یہ پرواز اور بھی مشکل تھی کیوں کہ زمین اور پانی پر ہوا کا دباؤ مختلف ہوتا ہے. یہ ونگ کمانڈر عاصم سلیمان کا جذبہ ایمانی اور وطن کی عزت بچانے کیلئے خطرناک ترین پلان تھا اس لئے انھوں نے اپنے ساتھی ونگ مین فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو بھی اس پلان کے متعلق پہلے نہیں بتایا تھا تاکہ کہ وہ اس سوچ میں نہ پڑھ جائیں کہ اتنی کم اونچائی پر طیارے کو اڑائیں گے تو طیارہ کریش کر جانے کے چانسز بہت زیادہ ہوں گے ونگ کمانڈر عاصم سلیمان نے احمد حسن کو مشن کے دوران اس وقت آرڈرز دئے جس کے بعد احمد حسن کو سوچنے کا موقع نہیں ملا اور دونوں طیارے وطن کی عزت و آبرو برقرار رکھنے کیلئے ایک ساتھ زمین کی طرف بڑھے اور پھر سمندر کے اوپر چند فٹ کی اونچائی پر معراج طیاروں کو کامیابی سے کنٹرول میں رکھا اور امریکی بحری بیڑے کے بلکل قریب پہنچ کر فضاؤں میں بلند ہوتے ہوئے اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جس کی وجہ سے امریکیوں کو سنبھالنے کا موقع ہی نہ ملا اور اقبال کے شاہینوں نے فاتح کا پیغام کنٹرول روم کو دے دیا. آپریشن انسپائرڈ الرٹ میں پاک فضائیہ کی کامیابی کے ساتھ ہی فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کی یہ بات تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گئی کہ "امریکی 3 مئی 1995 کا دن ہمیشہ یاد رکھیں گے. پاک فضائیہ کے جانثاروں  نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان آئر فورس وطن کی حفاظت اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور اقبال کے شاہینوں کا جذبہ ؤ ایمان ان کی کامیابی کی ضمانت ہے 

قسم اس وقت کی جب وقت ہم کو آزماتا ہے 

جوانوں کی زبانوں پر نعرہ تکبیر آتا ہے 

پاکستان زندہ باد

پاک فوج پائندہ باد 

Post a Comment

0 Comments