Complete History Of Babri Masjid In Urdu

Babri Masjid History 

اسلام و علیکم دوستو 

دوستو بابری مسجد مسلمانوں کی تاریخی مسجد تھی جیسے 1528 عیسوی میں مغل بادشاہ بابر کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا. اس تاریخی مسجد پر ہندوؤں نے اپنا حق جمانے کے لئے کہا کہ بادشاہ بابر نے رام مندر کو گرا کر اس جگہ بابری مسجد کو تعمیر کروایا تھا لیکن یہ سفید جھوٹ ہے. کئی ریسرجز اور ہندوؤں کی تاریخی کتابوں میں کسی بھی جگہ اس بات کا کوئی زکر موجود نہیں ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر پہلے رام مندر تھا یا رام کا اس جگہ سے کوئی تعلق تھا.

1788 میں جوسف ٹائیفنہلر نامی ایک عیسائی پادری نے بنا کسی ثبوت کے یہ جھوٹ پھیلایا کہ رام کی پیدائش بابری مسجد کے قریب ہوئی تھی جس کے بعد ہندوؤں نے بابری مسجد کے قریب رام کا ایک جبوترا بنا لیا.

 1885 میں ماہنت رگوبر داس نامی شخص نے بابری مسجد کے پاس رام کے چبوترے پر ایک مندر بنانے کے لئے کورٹ میں پٹیشن دائر کی 1886 میں فیض آباد عدالت نے اس درخواست کو رد کر دیا.

22دسمبر 1949 کو ہندوؤں کے ایک گروپ نے رات کی تاریکی میں چھپ کر بابری مسجد کے اندر رام لعلا کی کچھ مورتیاں رکھ دی جس کے بعد بابری مسجد پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا 5جنوری 1950 کو اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے نائر نے بابری مسجد کو تالا لگوا دیا اور مسلمانوں کو مسجد کے قریب آنے تک پر پابندی لگا کر ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دے دی گئی. بابری مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کرنے پر کے کے نائر کو جن سن کی طرف سے سانسد کا امیدوار بنا دیا گیا.

1950میں ہاشم انصاری نامی ایک مسلمان نے مسلمانوں کے لئے بابری مسجد کو کھولنے اور نماز ادا کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے فیض آباد عدالت میں ایک درخواست دائر کی کی تو ہندوؤں کی جانب سے کوپال وشارت اور مہن پراہنس رام چندر داس نے رام کی پیدائش والی جگہ پر پوچا کی درخواست بھی دائر کر دی اس طرع مسلمانوں کی مسجد اور ہندوؤں کے مندر کی مینجمنٹ نے اپنے اپنے حق کیلئے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تنازع بڑھنے کی صورت میں مسجد کے ایریا کو سیل کر دیا گیا.

1984میں ہندوؤں کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کیلئے ایک پینل بنایا اور رام مندر کے لئے ایک بڑی تحریک چلائی 1فروری 1986 کو ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے نے یو سی پانڈے کی درخواست پر اس جگہ ہندوؤں کو اجتماعی پوجا کی اجازت دے دی اور بابری مسجد کا کنٹرول ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا 9 نومبر 1989 کو اس وقت کے وزیر اعظم رجیو گاندھی نے رام مندر کی تعمیر کرنے کی اجازت بھی دے دی 11 نومبر کو بھارت کی سیاسی پارٹیوں نے مندر کی بنیاد رکھوائی جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کا تنازع خونریزی میں تبدیل ہو گیا. بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے انتہا پسند ہندوؤں کےزریعے مسلم مخالف فسادات کروائے گئے اور کئی بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا 

25ستمبر 1990 کو بھارتی جنتا پارٹی کے سربراہ ایم کے ایڈوانی نے گجرات سے اتر پردیش تک مسلم مخالف ریلی نکالی اور مذہب کو استعمال کرتے ہوئے 1991 میں بی جے پی بھارت کے سب سے بڑے ضلع اتر پردیش میں اقتدار میں آ گئی. 7 اکتوبر 1991 کو بے جے پی نے بابری مسجد سے جڑی 2.77 ایکڑ زمین اپنے قبضے میں لے کر رام مندر کا کام شروع کروا دیا جس کے بعد مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا اور 23 جولائی 1992 کو پرائم منسٹر کو اس کام کو رکوانا پڑا اور سپریم کورٹ نے سٹے آرڈر جاری کر دیا لیکن 28 نومبر 1992 کے دن اڈوانی نے سپریم کورٹ کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مندر کی تعمیر جاری رکھنے کا اعلان کردیا.

 6 دسمبر 1992 کا دن سیاہ ترین دن ثابت ہوا اور اس دن انتہا پسند ہندوؤں نے بھارتی حکومت عدالت پولیس اور تمام جمہوری اداروں کی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد کو شہید کرنا شروع کر دیا. عدالت کے آرڈرز کے خلاف 3 لاکھ سے زائد انتہا پسند ہندو بابری مسجد پر چڑھ دورے اور مسجد کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اسے شہید کر دیا.

بابری مسجد کو شہید کرنے پر ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں. بابری مسجد کی شہادت پوری مسلم دنیا کے لئے غم و غصہ کا باعث بنی اور پوری دنیا نے بھارت کے اس اقدام کو کالعدم قرار دیا جس کو چھپانے کے لئے بھارتی حکومت نے 16 دسمبر 1992 کو مسجد کی شہادت پر ایک کمیٹی لبراہن کمیشن تشکیل دی اور عدالت نے اس جگہ کو پھر سے مکمل سیل کر دیا.

مسجد تو اب شہید ہو چکی تھی لیکن مسلمانوں نے مسجد کی جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کیس دائر کر دیا جسے کئی بار رد کر دیا گیا اور آخر کار 2002 میں مسجد کی جگہ کے مالکانہ حق کو طے کرنے کیلئے عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی. عدالت کے حکم پر ایک ٹیم کو مسجد کی جگہ مندر ہونے کے ثبوت اکٹھے کرنے کے روانہ کیا گیا 12 مارچ 2003 کو گھدائی شروع کی گئی یعنی یہ کام انتہائی سست رفتار سے کیا گیا اس سے پہلے حکومت نے جو لبراہن کمیشن تشکیل دیا تھا وہ 17 سالوں بعد 30 جون2009 میں اپنی ریپوٹ اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کرتا ہے اس ریپورٹ میں 68 افراد کو بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش رچنے کا سرغنہ قرار دیا گیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی.

30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینج نے بابری مسجد کی کل زمین جو کہ 2.77 ایکڑ اراضی پر مشتمل تھی اسے تینوں پارٹیوں رام لالا, نرموہی اکھاڑا اور سنی وقف بورڈ میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا. مگر مسلمانوں نے ایک حصہ لینے سے انکار کر دیا کیوں کہ ساری زمین مسجد کی تھی اور وہاں رام مندر کے کوئی ثبوت بھی نہیں ملے تھے اسے میں مسجد کی زمین پر کو حصوں میں بانٹا سراسر ناانصافی تھی اور اپنا حق لینے کے لئے مسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دیا. انہیں تاریخ پر تاریخ ملتی رہی لیکن مسلمانوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ جس سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں ان کے انصاف کا ترازو ہندوؤں کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے کیونکہ ملک ہندوؤں کا تھا مسلمان تو برائے نام شہری وہاں کے شہری ہیں.

9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس کیس کا آخری فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی ساری زمین مندر کو دینے کا حکم دے دیا اور مسلمانوں پر احسان کرتے ہوئے بابری مسجد کے بدلے میں پانچ ایکڑ زمین کسی دوسری جگہ مسجد بنانے کیلئے دینے کا فیصلہ کیا.

جس کے بعد بابری مسجد ہمیشہ کے لئے رام مندر میں تبدیل ہو گئی اور 30 ستمبر 2020 کو ایک لمبے عرصے کے بعد لکھنؤ کی عدالت نے مسجد کو شہید کروانے کی سازش رچنے والے تمام بڑے بڑے ملزمان جو پہلے ہی سے زمانت پر رہا گھوم رہے تھے ان کو کلین چٹ دے کر بری کردیا.

مسلمانوں کی تاریخی مسجد کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی اور پھر اسے شہید کر دیا اور آخر میں اس کا نام ہی چھین لیا گیا آج بھی بھارت میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے. مسلمانوں کی ایک اور تاریخی گیانواپی مسجد میں شیولنک کی آڑ میں اسے شیو مندر بنانے کیلئے انتہا پسند ہندو وہی کام کام کر رہے ہیں جو بابری مسجد کے ساتھ کیا گیا تھا.

Post a Comment

0 Comments