Battle of Tarain Prithviraj Chauhan Vs Sultan Shahabuddin Ghauri In Urdu

 

اسلام و علیکم!

دوستو آج ہم آپ کے ساتھ ایک ایسے مسلمان سپاہ سالار اور فاتح ہندوستان کی داستان شئر کریں گے جنہوں نے میدان جنگ کی تاریخ میں ایسی کامیابی حاصل کی جس کی مثال نہیں ملتی.آپ سے گزارش ہے کہ پوسٹ کو پورا پڑھئیے گا.

دوستو اس مسلمان سپاہ سالار کا نام شہاب الدین غوری تھا.جس نے ہندوستان کے راجا پرتھوی راج چوہان کی بہت بڑی فوج کو بدترین شکست دے کر تاریخ رقم کی تھی.

دوستو بھارت نے پرتھوی راج چوہان پر ایک فلم بھی بنائی ہے جس میں انڈین فلم سٹار اکشے کمار پرتھوی راج کا کردار ادا کر رہے ہیں یہ فلم کچھ دنوں بعد رلیز ہو گی مجھے اس بات کا علم تو نہیں ہے کہ فلم میں انھوں نے کیا دیکھایا ہے لیکن یہ فلم پرتھوی راج چوہان کی بہادری پر ہی بنائی گئی ہو گی جیسے بھارت کئی طرع کی فلمیں بنا کر اپنی ناکامی اور شکست کا بدلہ فلم میں لے لیتا ہے شاہد اس میں بھی ایسا ہی ہو گا اس لئے میں فلم کی کہانی سے پہلے آپ کو حقیقی داستان سنا رہا ہوں جو تاریخ میں سنہرے حروف میں درج ہے.

دوستو پرتھوی راج چوہان ہندوستان کا بڑا راجہ تھا اور اس کے ساتھ ہندوستان کے 250 کے قریب دوسرے راجا بھی تھے یعنی پرتھوی راج چوہان کی اپنی بھی بہت بڑی فوج تھی اس کے ساتھ 250 راجاؤں کی فوج اور طاقت بھی شامل تھی اس لئے پرتھوی راج چوہان کو ناقابلِ شکست سمجھا جاتا تھا.

دوستو اس دور میں جنگ کے لئے اچھی نسل کے گھوڑوں, جنگی ہاتھیوں اور تیر تلوار کا استعمال کیا جاتا تھا. پرتھوی راج کے پاس جنگی ہاتھیوں اور لڑنے والے سپاہیوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اسے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا. پرتھوی راج کے اس غرور کو شہاب الدین غوری نے پاش پاش کر کے رکھ دیا تھا جس کے بعد مسلمانوں کی ہندوستان پر حکومت قائم ہوئی.

دوستو شہاب الدین غوری کی پرتھوی راج چوہان کے ساتھ پہلی جنگ 1191 میں ہوئی تھی لیکن اس جنگ میں شہاب الدین غوری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد پرتھوی راج چوہان کا غرور مزید بڑھ گیا تھا. شکست کے باوجود شہاب الدین غوری نے ہمت نہیں ہاری اور ہندوستانی راجا کا غرور خاک میں ملانے کیلئے نئے سرے سے تیاری شروع کی.

 شہاب الدین نے دن رات ایک کر کے اپنی فوج کو پھر سے تیار کر لیا یہ فوج دلیر سپاہیوں اور ماہر جرنیلوں پر مشتمل تھی. شہاب الدین غوری کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب سپاہی تھے جبکہ پرتھوی راج چوہان کی فوج اس سے کئی گناہ بڑی تھی. 

شہاب الدین غوری نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہندوستانی راجا کو جنگ کے لئے تیار ہونے کا پیغام پہنچایا اور اپنی فوج کے ہمراہ پرتھوی راج سے پچھلی شکست کا بدلہ لینے دہلی کی طرف چل پڑے. دوسری جانب پرتھوی راج ہندوستان کے 250 راجاؤں کی مدد سے تین لاکھ سے زائد سپاہی اور ہزاروں کے حساب سے جنگی ہاتھی لے کر شہاب الدین کے لشکر کو کچلنے کیلئے تیاریاں کر رہا تھا.

پرتھوی راج نے اپنی بڑی فوج اور طاقت کے غرور میں شہاب الدین غوری کو جواب بھجوایا کہ اپنے سپاہیوں پر ترس کھاؤ اور انھیں لے کر یہیں سے واپس غزنی چلے جاؤ ہم تمھارا پیچھا بھی نہیں کرتے.

 شہاب الدین غوری کو جب پرتھوی راج چوہان کا یہ پیغام ملا تو انھوں نے فوری جواب بھجوایا کہ "مسلمان کبھی جنگ کے میدان کو چھوڑ کر واپس نہیں بھاگتا اس لئے واپس لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سلطان شہاب الدین کی فوج ترائن کے میدان میں پہنچی تو نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا. شہاب الدین غوری کی امامت میں ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان سپاہیوں نے نماز فجر ادا کی اور پرتھوی راج چوہان کی فوجوں کا انتظار کرنے لگے کچھ دیر بعد دونوں فوجیں ترائن کے میدان میں آمنے سامنے تھیں. 

ترائن کی دوسری جنگ بھی یکطرفہ لگ رہی تھی کیوں کہ ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان سپاہیوں کے مد مقابل 3 لاکھ سے زائد سپاہی تھے اور جنگی سازو سامان بھی پرتھوی راج کی فوجوں کے پاس وافر تعداد میں تھا.

مسلمان جب میدان جہاد میں اتر پڑے تو پھر اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں شہادت یا غازی ان دونوں صورتوں میں مسلمان کے لئے خوشخبری ہے شہید ہو گیا تو جنتی اور غازی رہا تو فاتح اس دن بھی ایسا ہی ہوا. شہاب الدین کی افواج جنگ کے میدان میں اپنی سے تین گناہ بڑی فوج سے نبرد آزما ہونے اتری.

سلطان شہاب الدین غوری نے اپنی تلوار نکالتے ہوئے نعرہ تکبیر بلند کیا تو ایک لاکھ بیس ہزار سپاہیوں کی اللہ اکبر کی آواز سے پرتھوی راج کی فوجوں کے درو دیوار ہل گئے.

جنگ کا آغاز سورج طلوع ہونے سے کچھ وقت پہلے ہی ہوا تھا. دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی.

اللہ اکبر کے نعرے کی کمال طاقت تھی کہ مسلمانوں سپاہی نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا لگاتے ہوئے دیوانہ وار پرتھوی راج کی فوجوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے اور پرتھوی راج کی فوجوں کی گردنیں کٹ کٹ کر کرتی دکھائی دیتی گئی. ترائن کا میدان جنگ لہو سے سرخ ہوتا گیا. گھوڑوں کی رفتار اور ہاتھیوں کی جنگہاڑ کے ساتھ گرد اڑتی دکھائی دے رہی تھی. تلواروں کے ٹکرانے کے ساتھ ہر طرف نعرہ تکبیر  اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھی. سورج طلوع ہو کر بلند ہونے تک پرتھوی راج چوہان کی فوجوں پر سلطان شہاب الدین غوری کی فوجیں پوری طرح حاوی تھیں ان پر مسلمانوں کا ڈر جھا چکا تھا جوں جوں وقت گزر رہا تھا جنگی ہاتھیوں پر سوار ہو کر لڑنے والی پرتھوی راج کی فوجیں ڈر سے کانپ رہی تھی اب انھیں اپنی جانوں کے لالے پڑھ گئے وہ کہاوت ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا. ڈر کی وجہ سے با آسانی پرتھوی راج کے سپاہی مسلمان سپاہیوں کے ہاتھوں لگاتار مارے جاتے رہے.

 تاریخ گواہ ہے فجر کے وقت شروع ہونے والی خونریز اور بڑی جنگ ظہر کی نماز سے پہلے ہی مکمل ہو گئی. شہاب الدین غوری کے لشکر نے اپنے سے تین گناہ بڑے لشکر کا مکمل خاتمہ کر دیا یوں یکطرفہ دکھائی دینے والی جنگ بلکل الٹی یکطرفہ ثابت ہوئی اور شہاب الدین غوری کو جنگوں کی تاریخ میں ایک ناقابل یقین فتح حاصل ہوئی.ترائن کے میدان میں شہاب الدین غوری کی فوج نے فتح کا پرچم لہرا دیا جو اس وقت جنگ میں فاتح ہونے کی نشانی ہوا کرتا تھا.

پرتھوی راج چوہان اپنی جان بچانے کے لئے میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا تھا مگر مسلمان سپاہیوں نے اس کا پیچھا کیا اور دریائے سر سوتی کے کنارے سے اسے گرفتار کر لیا گیا پھر پرتھوی راج چوہان کو سلطان شہاب الدین

غوری کے سامنے پیش کیا گیا اور سلطان کے حکم پر اسے جنم واصل کیا گیا.

دوستو اس جنگ کے بعد مسلمانوں کی ہندوستان پر حکمرانی قائم ہو گئی مگر کنوج کے راجاؤں نے مسلمانوں کی حکمرانی سے انکار کیا کر دیا اور پھر انھیں بھی بری طرع شکست کا سامنا کرنا پڑا پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا ایسا رعب و دبدبہ چھایا کہ ان کا مقابلہ کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی.

ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک عظیمشان سلطنت قائم ہوئی جو 1857 تک باقی رہی. آگے آنے والے مغلوں کے حکمران موج مستی اور عیش و عشرت کے چنگل میں پھنستے چلے گئے. ان کے درباروں کی زینت رقاصائیں اور گوائے بن گئے انھیں شراب و کباب کے مزے میں سمجھ ہی نہ آئی کہ کب انگریز ان پر قابض ہوئے پھر ان کا انجام بھی بہت بھیانک ہوا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا گیا وہ لفظوں میں بیان کرنا مکمن ہی نہیں ہے.

پیارے دوستو تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین پر عمل پیرا رہے تب تلک دنیا میں ان کا سکہ چلتا رہا ان کا رعب و دبدبہ قائم و دائم رہا اور مسلمانوں نے ہر میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے لیکن جوں جوں مسلمان اپنے دین سے دور ہوتے گئے ویسے ویسے ان پر دشمن حاوی ہوتے گئے اور آخر کار مسلمانوں کو زلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا. ان کی مضبوط ترین سلطنتیں پاش پاش ہو کر رہ گئی. مسلمانوں کی حالت زار پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا 

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر 

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر 

 آج مسلمانوں کی بے بسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے جس کے زمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں کیوں کہ ہمارا دین تو ہمیں جہاد کے لئے تیار رہنے کا حکم دیتا ہے لیکن ہم نماز روزے حج زکوۃ کو ہی مکمل دین سمجھ بیٹھے ہیں اور جہاد سے بلکل غافل ہیں حالانکہ جہاد ایسا ستون ہے جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے. اگر اسے ہی نکال دیا جائے تو باقی سب کچھ خود ہی زمین بوس ہو جائے گا اسی لئے آج دشمن اسلام نہ ہمیں نماز سے روکتے ہیں اور نہ روزے حج زکوۃ سے کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کی عبادات سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا انھیں عمل سے ڈر ہے اور عمل جہاد ہے. اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ نماز روزہ حج اور عبادات کو چھوڑ دیا جائے بے شک یہ سب فرائض ہیں یعنی ہمیں ہر صورت پورے کرنے ہیں اسی طرع جہاد بھی فرض ہے. ہماری یہ حالت دین سے دوری کی وجہ سے ہے اور اگر آج بھی ہم دین محمد ﷺ کی پیروی کرنے لگیں تو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں.

اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین 


Post a Comment

0 Comments